Thursday, 2 November 2023

جب بہ چلا تو قطرہ سمندر کا ہو گیا

 جب بہہ چلا تو قطرہ سمندر کا ہو گیا

آنکھوں میں ٹھہرا اشک تو پتھر کا ہو گیا

پُوجا اسے تو اس کو لگا دیوتا ہوں میں

پھر رنگ دوسرا ہی ستمگر کا ہو گیا

اس نے ہر ایک بات کہی یوں تراش کر

جیسے اثر زبان میں خنجر کا ہو گیا

چادر انا کی ہم نے تو اوڑھی تھی دو گھڑی

پھر کیسے فاصلہ یہ مقدر کا ہو گیا

بچے کو ماں کھلونوں میں ہی ڈھونڈتی رہی

اور بچہ قد میں ماں کے برابر کا ہو گیا

دولت تھی بے شمار مگر موت آئی جب

دُنیا سے ہاتھ خالی سکندر کا ہو گیا

کھا کھا کے چوٹ ہم تو نکھرتے چلے گئے

عطیہ! ہمارا دل تو سخنور کا ہو گیا


عطیہ نور

No comments:

Post a Comment