جب بہہ چلا تو قطرہ سمندر کا ہو گیا
آنکھوں میں ٹھہرا اشک تو پتھر کا ہو گیا
پُوجا اسے تو اس کو لگا دیوتا ہوں میں
پھر رنگ دوسرا ہی ستمگر کا ہو گیا
اس نے ہر ایک بات کہی یوں تراش کر
جیسے اثر زبان میں خنجر کا ہو گیا
چادر انا کی ہم نے تو اوڑھی تھی دو گھڑی
پھر کیسے فاصلہ یہ مقدر کا ہو گیا
بچے کو ماں کھلونوں میں ہی ڈھونڈتی رہی
اور بچہ قد میں ماں کے برابر کا ہو گیا
دولت تھی بے شمار مگر موت آئی جب
دُنیا سے ہاتھ خالی سکندر کا ہو گیا
کھا کھا کے چوٹ ہم تو نکھرتے چلے گئے
عطیہ! ہمارا دل تو سخنور کا ہو گیا
عطیہ نور
No comments:
Post a Comment