عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بڑی مشکل یہ ہے جب لب پہ تیرا ذکر آتا ہے
دماغ و دل میں اک خوابیدہ محشر جاگ اٹھتا ہے
ابل پڑتے ہیں سوتے بیکراں جذبِ محبت کے
اُبھر آتے ہیں خاکے تیری صورت تیری سیرت کے
کبھی جی چاہتا ہے تیری معصومی کے گُن گاؤں
کبھی جی چاہتا ہے سادگی کا ذکر کر ڈالوں
کبھی کہتا ہے دل زہد و ورع سے ابتداء کر لوں
کبھی کہتا ہے دل دریا دلی کا تذکرہ کر لوں
کبھی قصہ سنانا چاہتا ہوں تیرے بچپن کا
کبھی سادہ بہت معصوم سنجیدہ لڑکپن کا
کبھی حیرت فزا غزوات پھر جاتے ہیں آنکھوں میں
حنین و بدر کے دن رات پھر جاتے ہیں آنکھوں میں
کبھی تیری صداقت ولولہ انگیز ہوتی ہے
کبھی تیری روا داری تحیر خیز ہوتی ہے
کبھی تیرے کمالِ صبر پر دل وجد کرتا ہے
تخیل پر تِرے اوصاف کا پرچم اُبھرتا ہے
کبھی تیری جفا کوشی پہ آنکھیں ڈبڈباتی ہیں
تصور سے تِرے فاقوں کے نبضیں چُھوٹ جاتی ہیں
کبھی جلوے اُبھرتے ہیں تِری مہماں نوازی کے
یتیموں بے سہاروں بے کسوں کی چارہ سازی کے
مسلسل کشمکش ہوتی ہے الفاظ و معانی میں
میں بہہ جاتا ہوں اک خاموش طوفاں کی روانی میں
کہوں کیا کس طرح یہ فیصلہ مجھ سے نہیں ہوتا
خود اپنی اُلجھنوں کا تجزیہ مجھ سے نہیں ہوتا
عامر عثمانی
No comments:
Post a Comment