اتنی بلندیوں سے زمیں پر گِرا دیا
احسان ٹھوکروں کا جو چلنا سِکھا دیا
شاید کسی پڑاؤ میں سانسیں بھی چھوڑ دوں
اس بار زندگی کے سفر نے تھکا دیا
اک شخص کے نصیب پہ افسوس ہے بہت
پتھر سمجھ کے قیمتی ہیرا گنوا دیا
وہ سوچتا تھا رُوٹھ کے نخرے دکھائے گا
اور ہم نے ذہن سے اسے یکسر بُھلا دیا
دیکھی فلک پہ رات ستاروں کی روشنی
اک خوش فہم نے گھر کا دِیا ہی بُجھا دیا
لوگوں نے اس کے دِین پہ فتوے لگا دئیے
جس نے بھی احترام میں سر کو جُھکا دیا
دُکھ یہ نہیں اُٹھایا گیا ہے نشست سے
نا اہل ایک میری جگہ پر بٹھا دیا
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment