عارفانہ کلام حمدیہ قصیدہ درِ باری تعالیٰ جلَّ شانہٗ
تشبیب
چلو! یہ پوچھتے ہیں کہکشاں سے
محبت ہے تجھے کس آستاں سے؟
یہ سیمیں، گُنگناتی آبشاریں
سُریلے گیت لاتی ہیں کہاں سے؟
مگن تہلیل میں ہیں کیوں پکھیرو؟
انہیں رغبت بھلا کیوں ہے اذاں سے؟
یہ قطرے بارشوں کے ان گِنت سے
انہیں ہے کون برساتا وہاں سے؟
فلک قائم ہے کیسے بِن ستوں کے؟
سہارا اس کو ملتا ہے کہاں سے؟
بدلتا رات کو دن میں ہے کیسے؟
کہ لاتا کون ہے شب آسماں سے؟
کوئی میٹھے، کوئی کڑوے کسیلے
پھلوں میں ذائقے آئے کہاں سے؟
گریز
ازل سے جس کا مادح ہے زمانہ
ہے اس کی حمد جاری اب زباں سے
مدح
ہوا ذکرِ خدا جاری زباں سے
کِیا محفوظ یوں رب نے زیاں سے
خلائق کو دِیا محبوبﷺ اپنا
کیا آغازِ نعمت ہے کہاں سے
ہے نورِ مصطفیٰؐ تیرا کرشمہ
کیا توحید کا در وا جہاں سے
نہیں ہے کوئی بھی تیرا معاون
چلا کارِ جہاں ہے کُن فکاں سے
کبھی تھے عالم امثال میں ہم
تِری حکمت ہمیں لائی وہاں سے
منور قلب جو توحید سے ہے
ہے اُترا فضل تیرے سائباں سے
خلائق پر تِرا ہی حکم جاری
یہ کشتی ہے رواں اس بادباں سے
پہاڑوں سے کیے جاری ہیں چشمے
ہوا دل شادماں آبِ رواں سے
فلکں روشن کِیا مہتاب سے ہے
بھری پھر مانگ اس کی کہکشاں سے
ستارے ٹمٹماتے، جگمگاتے
یہ استقبالیے ہیں آسماں سے
کہیں پانی، کہیں صحرا، بیاباں
کہیں آباد گُلشن طائراں سے
اُگا کر گرم صحرا میں تُو سبزہ
ہے دیتا آب بحرِ بیکراں سے
مگن تہلیل میں ہے جو اسے پھر
اماں اس کو ملے دارالاماں سے
الہیٰ! نام تیرا ہے زباں پر
غرض کب ہے فلاں سے یا فلاں سے
کیا تخلیق شیشہ آفتابی
اندھیرا چھٹ گیا سارے جہاں سے
فدا ہوں یا خدا! تیری رضا پر
کہ آنسو لائے بخشش عرشیاں سے
ہے گرچہ فضل تیرا اتقیاء پر
مگر کب بے رُخی ہے عاصیاں سے
قصیدہ حمدیہ تیرے لیے ہے
غزل معمور ہے آہ و فغاں سے
غزل
یہ پل دو پل نہیں رُکتی گھڑی جو
ملائے گی کبھی جانِ جہاں سے
سمندر سی روانی گُونجتی ہے
کہ محوِ گُفتگو ہوں آسماں سے
مبارک دیجیے اس کو ہے جس کا
مکاں آباد ذکرِ لا مکاں سے
تِرا لا انتہا گنج ہُنر ہے
نہیں فُرصت مجھے تیرے دھیاں سے
یہیں ہے مطلعِ ثانی مناسب
مِرا مطمح نظر ہے مہرباں سے
مطلعِ ثانی
تُو، مولا! ماوراء کون و مکاں سے
مگر جلوہ عیاں ہے این و آں سے
صمد تُو ہے، غنی ہے تُو، ازل سے
چنیں سے ہے غرض نا ہے چناں سے
شب تاریک تُو نے کر دی روشن
قمر سے، چاند سے، کہکشاں سے
تُو لا محدود اپنی ہر صفت میں
فزوں تر عظمتیں تیری بیاں سے
یہ سیارے رواں ہیں دائروں میں
ستارے بھی پھریں شعلہ فشاں سے
بڑے ہی شوق سے جاں سے گُزر جا
نوازے گا حیاتِ جاوِداں سے
میسر ہے قصیدہ حمدیہ جو
خدا راضی ہوا مجھ ناتواں سے
دعا
کرم تیرا خلیل اللہ والا
مجھے خیرات ہو اس داستاں سے
تجھے اب مصطفیٰؐ کا واسطہ ہے
بچا لینا خدایا! ہر خزاں سے
قیامت خیز منظر جا بجا ہے
کہ برسے ابر رحمت آسماں سے
یہ ثاقب تو ہے بس بخشش کا طالب
نواز اس کو حیاتِ جاوداں سے
عباس علی شاہ ثاقب
No comments:
Post a Comment