Tuesday, 7 November 2023

کھل رہی جو خزاں میں ڈالی ہے

کِھل رہی جو خِزاں میں ڈالی ہے

اس کے پیچھے چمن کا مالی ہے

اِک دِیا ہے منڈیر پر روشن

اور دیوار گِرنے والی ہے

زندگی، پوری تو نہیں لیکن

جس قدر بن سکی بنا لی ہے

ہم زیاں میں ہیں یا ضرر میں ہیں

دن ہے روشن، یا رات کالی ہے

کِھل رہے ہیں سماعتوں میں گُلاب

وہ حسِیں بات کرنے والی ہے

اِک دو آباد عمارتوں کے سوا

یہ محبت تو پائمالی ہے


احمد افتخار

No comments:

Post a Comment