ڈھونڈتے ہو جسے دفینوں میں
وہی وحشی ہے سب کے سینوں میں
میرے قابیل کی روایت ہیں
پُرزے جتنے بھی ہیں مشینوں میں
صبحدم پھر سے بانٹ دی کس نے
تیرگی شہر کے مکینوں میں
بُھوک بوئی گئی ہے اب کے برس
دانت اُگ آئے ہیں زمینوں میں
زندگی گاؤں کی حسِیں لڑکی
گِھر گئی ہے تماش بینوں میں
کس مشقت کے سانس لیتا ہوں
یہ غزل بھی ہوئی مہینوں میں
اختر امام رضوی
No comments:
Post a Comment