یہ خوں بہا تو نہیں
یہ خوں بہا تو نہیں شامِ غم کا سودا ہے
متاعِ زیست کا، درد و الم کا سودا ہے
یہ خوں بہا مِرے آدرش کی تجارت ہے
یہ میری فکر کا لوح و قلم کا سودا ہے
یہ میرے گھر میں حمیت کا باب بند ہوا
سنان و سیف کا طبل و علم کا سودا ہے
یہ خوں بہا تو نہیں سیم و زر کے سائے میں
مِری انا کی ہزیمت کی اک کہانی ہے
کوئی تپش مجھے محسوس ہی نہیں ہوتی
لہو کہاں ہے رگوں میں یہ صرف پانی ہے
یہ آج گرمئ بازار بے سبب تو نہیں
شکستِ جوہرِ پندار بے سبب تو نہیں
ہمارا حال کوئی لِکھ گیا سرِ دیوار
ہمارے خواب کوئی رکھ گیا سرِ بازار
یہ خوں بہا تو نہیں مول ہے مسافت کا
ہماری آبلہ پائی کے دام لگتے ہیں
ہم ایسے سوختہ جانوں کی داد خواہی کو
بہت سے صاحبِ زر آج یاں پہنچتے ہیں
یہ کوئی انجم و مہتاب لے کے ہاتھوں میں
ہمارے خواب کی قیمت لگانے آتا ہے
ہماری بے سر و سامانیاں چھپانے کو
یہ زر نگار کوئی سائباں سجاتا ہے
ہمارے قدموں تلے خاکِ رہگزر کی جگہ
یہ کوئی سبزہ و گل آج یاں بچھاتا ہے
جو کربلا کا مسافر تھا خلعتیں لے کر
بلادِ شام کی جانب وہ کوچ کر دے گا
کوئی بتائے جلی خیمہ گاہوں کا نوحہ
یہاں پر آج سرِ شام کون لکھے گا
افتخار برنی
No comments:
Post a Comment