میرا رونا مِری ہنسی تنہا
زندگی ہے گزر رہی تنہا
شہرِ اُلفت بسانے والا آج
ہے بھٹکتا گلی گلی تنہا
بھیڑ میں اس قدر ہے تنہائی
موت تنہا ہے، زندگی تنہا
تیرے جانے کے بعد گاؤں میں
چاند تنہا ہے، چاندنی تنہا
گُنگناتے ہیں وصل کے نغمے
ہجر زادے کبھی کبھی تنہا
مجھ میں رہتی ہے اب دُھواں بن کر
گرم یادوں کی اک صدی تنہا
پھر حویلی میں آ گئی رہنے
کوئی دُلہن نئی نئی تنہا
رہ گیا کٹ کے آدمیت سے
دورِ حاضر کا آدمی تنہا
پہلے بھی تھا کوئی کوئی ہوتا
اب تو شیدا ہے ہر کوئی تنہا
علی شیدا
No comments:
Post a Comment