مُشک سی چار سُو ہوا میں ہے
کون ہے کس کی بُو ہوا میں ہے
چُومنا چاہے سب چراغوں کو
کیسی لت کیسی خُو ہوا میں ہے
قتل کے بعد سب جلے ہوں گے
رنگ پانی میں، بُو ہوا میں ہے
جس نے للکارا تھا زمیں پہ کبھی
آج وہ جنگجو ہوا میں ہے
جنگ کیوں اس زمیں پہ جاری ہے
جب ہمارا عدو ہوا میں ہے
کیسے وہ ہر چراغ تک پہنچے
بس یہی جستجو ہوا میں ہے
رشتۂ خاک ہی نہیں سب کچھ
کچھ نمی کچھ نمو ہوا میں ہے
حشر کے دن سنایا جائے گا
قید ہر گفتگو ہوا میں ہے
پاؤں اب بھی زمیں پہ ہیں دانش
میں سمجھتا تھا تُو ہوا میں ہے
امتیاز دانش ندوی
No comments:
Post a Comment