لبِ دریا پڑا ہے دل کا چراغ
حسرتوں سے بھرا ہے دل کا چراغ
روشنی ہے ہمارے کمرے میں
طاق پر جل رہا ہے دل کا چراغ
مہ وشوں سے بچا کے رکھتا تھا
پر کوئی لے اُڑا ہے دل کا چراغ
سُرخئ چشمِ تر سے لگتا ہے
آنکھ سے بہہ گیا ہے دل کا چراغ
رنگ ہے زرد زرد چہرے کا
بُجھتا ہی جا رہا ہے دل کا چراغ
خاک پر بکھرے نقش فیصل کے
خاک پر گِر چکا ہے دل کا چراغ
فیصل امام رضوی
No comments:
Post a Comment