Friday, 10 November 2023

کہیں پر سرمئی شاموں میں

 امید


کہیں پر سُرمئی شاموں میں

دُھندلے منظروں اور

خواب چہروں کو

وہی ہے جو بصارت کی حدوں میں قید کرتا ہے

وہی ہے جو نگارِ صبح کی

ٹُوٹی ہوئی امید کو

انجم نما ساعت سے ہم آغوش کرتا ہے

مِرے بُجھتے دِیے کی لو سے

جگنو اور ستارے

وہ نئے تخلیق کرتا ہے

اسی کی رحمتیں ریگِ رواں پر

سائباں بن کر مِری تپتی مسافت میں 

عجب اک شبنمی احساس دیتی ہیں 

اسی کی یاد ہے جو اک صدا بنکر

مرے کوہِ ندا پر گونجتی ہے

اور بلندی خیمۂ افلاک جیسی

حوصلوں کو بخش دیتی ہے

اسی کے نام سے 

خوابوں کی ساری کرچیاں جڑ کر یقیں کی 

اک نئی دیوار کی صورت میں ڈھلتی ہیں

ہوا شوریدہ سر ہو ساحلوں پر

سر پٹختی تند موجیں ہوں

اسے آواز دیتا ہوں تو

بوسیدہ سا میرا بادباں پھر سے

ہوا کے رُخ پہ کُھلتا ہے

سفر آغاز کرنے کا مجھے پیغام ملتا ہے

اسی کا نام تو اذنِ سفر کا استعارہ ہے

ہر اک مد و جزر میں

ہر بھنور میں وہ کنارہ ہے

مِری گمراہیوں کے درمیاں

دل کے اندھیروں میں

اسی کی چاہتوں کی

دِھیمی دِھیمی آگ جلتی ہے

کہیں پر آگ کے پہلو میں

میرا مضمحل ایمان رہتا ہے

مِری مٹھی میں باقی

لمحۂ امکان رہتا ہے


افتخار برنی 

No comments:

Post a Comment