کبھی تو تیرے بارے میں سُلگتی ریت پر لِکھا
کبھی ساحل پہ جا کے میں نے گِیلی ریت پر لکھا
میں اپنی ذات کے بارے میں لِکھتا بھی تو کیا لِکھتا
مگر لِکھنا ضروری تھا، سو اُڑتی ریت پر لکھا
ہوائیں چل رہی تھیں جب تو لگتا ہے خُدا نے بھی
جو لِکھنا تھا مُقدر میں وہ سُوکھی ریت پر لکھا
یہ شب کیسے گُزرتی ہے، یہ دن کیسے گُزرتا ہے
یہ سوچا جب، تو میں نے سب یہ تپتی ریت پر لکھا
یہ لگتا تھا کہ جیسے رو ر ہے ہوں ریت کے ذرّے
تمھارا نام جب میں نے چمکتی ریت پر لکھا
نجانے کب تلک عرفان، پڑھ کر آسماں رویا
جو اک صحرا میں جاکے میں نے اُجلی ریت پر لکھا
عرفان مرتضیٰ
No comments:
Post a Comment