Monday, 6 November 2023

یہ سوچ کر بھی سمندر اداس رہتا ہے

 یہ سوچ کر بھی سمندر اُداس رہتا ہے

وہ خُوش بدن کسی دریا کے پاس رہتا ہے

یوں خاک ہوتے ہیں اک دن یہ خاک کے پُتلے

نہ حُسن باقی، نہ چہرے  پہ ماس رہتا ہے

اس آئینے کو بھی دو داد، ٹُوٹتا ہی نہیں

تمہارے حُسن سے بھی روشناس رہتا ہے

ابھی تو جُوتے اُتارے ہیں اس نے پیروں سے

ابھی تو شرم و حیا کا لباس رہتا ہے

سُنے سُنائے فسانے سُنا دئیے سب نے

تمہارے بارے میں میرا قیاس رہتا ہے

ابھی سے جیت کا اعلان کر دیا تم نے

ابھی تو فیصلہ باقی ہے، ٹاس رہتا ہے


اسد تسکین

No comments:

Post a Comment