مُنتظر ہوں یہاں بہاروں کی
تیری آنکھوں کے ان نظاروں کی
کیا سُناؤں میں غم کے ماروں کی
داستاں ہے بھری خساروں کی
بات میں نے سُنی ہزاروں کی
پھر بھی دُنیا خفا ہے یاروں کی
چال بدلے گی کب یہ ہاتھوں پہ
میری قسمت کے ان ستاروں کی
میری ناؤ ہے بیچ دریا کے
اب تمنا ہے پھر کناروں کی
کیا سُناؤں میں حال دل اپنا
بات سمجھا نہیں اشاروں کی
ہو بھروسہ خُدا پہ گر بشریٰ
پھر ضرورت نہیں سہاروں کی
بشریٰ سعید
No comments:
Post a Comment