شاہد ارض کرے کیوں یہ دعائے مزدور
بہرِ زینت ہے وہ محتاج بقائے مزدور
دیکھ کر حسن مکاں کی صفت عقل مکیں
آہ! نکلی نہ کسی لب سے ثنائے مزدور
کارخانے میں جو بارود کا بم آ کے پھٹا
جل گیا پیکر بے جرم و خطائے مزدور
غلہ ڈھونے سے پسینے میں نہائے سو بار
جب ہوا ایک پارۂ ناں روزہ کشائے مزدور
کلبۂ برف دسمبر میں ہے سر کے اوپر
فرش آتش ہے مئی میں تہِ پائے مزدور
ز خ ش
زاہدہ خاتون شروانیہ
No comments:
Post a Comment