ایک نظم لکھنی ہے
اس گھنگریالے بالوں والی لڑکی کے لیے
جو جوانی کے حسین دنوں میں بھی
اپنی لٹیں سلجھانے کی بجائے
مختلف رنگوں کی پینسلیں لیے
میرے نام کے حروف کی خطاطی میں مصروف ہے
وہ کھلے آسمان کے نیچے
ستاروں کی روشنی میں چلتی ہے
اس کا وجود جھٹلاتا ہے اندھیرے کو
کیوں کہ اس کے پہلو میں چاند چلتا ہے
اسی لیے اس کے جِسم سے نکلنے والی روشنی سے چاندنی کا گماں ہوتا ہے
اس سے مل کر اس کے خواب پوچھنے کی ہرگز ضرورت نہیں
اس کی آنکھیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں
مقدس کتابوں میں ایسے سراپا کا وجود ملتا ہے
جو جنت میں پارساؤں کو عطا کیۓ جائیں گے
میرا لکھا ہر لفظ
ایک پھول ہے
جو تمہارے لبوں کی ادائیگی سے کھل اٹھے گا
میاں وقار
No comments:
Post a Comment