احساس ہوا اس کے یوں رُوٹھ کے جانے پر
مانے گا نہیں شاید وہ آج منانے پر
ملتا تھا بہانے سے اب جانے ہوا ہے کیا
مُشکل سے ملتا ہے گھر اس کے بھی جانے پر
اب حرف شکایت بھی کیا کرتے بھلا ان سے
مجبور ہوئے ہیں ہم اب اس کو بُھلانے پر
بے نُور ہوئی آنکھیں رو رو کے تیرے غم میں
پائی ہے سزا ہم نے کچھ خواب سجانے پر
دن رات تڑپتی تھی میری ہی طرح بُلبل
برہم جو ہوئے سارے پھر اس کے اُڑانے پر
ہر دور میں عورت نے دیں اگنی پرکھشائیں
ہر بار زمانے نے رکھا ہے نشانے پر
ہر حد سے سوا وہ بھی بے کل میری چاہت میں
لگتا ہے کہ بیٹھا ہے اب تیر نشانے پر
فُرقت میں صنم تیری جو شعر کہے میں نے
آتی ہے حیا مجھ کو وہ شعر سُنانے پر
نفیسہ حیا
نفیس سلیم
No comments:
Post a Comment