Monday 17 June 2024

یہ عقیدہ نہیں حقیقت ہے کربلا پھر تیری ضرورت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یہ عقیدہ نہیں حقیقت ہے

کربلا پھر تیری ضرورت ہے

کربلا پھر تیری ضرورت ہے 

دین کے نام پر سیاست ہے 

غضب حق کا ہے سلسلہ جاری

غور کیجیے وہی علامت ہے

سر ابھارا ہے پھر یزیدوں نے 

کربلا وقت کی ضرورت ہے 

یہ عبادت یہ مسجدوں میں اذاں

جہد شبیرؑ کی بدولت ہے 

غم دوراں سے مل گئی فرصت 

غم سرور عظیم نعمت ہے

وقت کے مصطفیٰ ہیں سبط نبی

یہ جو کہہ دیں وہی شریعت ہے 

کس کو ہے کربلا سے کتنا لگاؤ

اب یہ معیار آدمیت ہے

کہتے کہتے گزر گئیں صدیاں   

ہم کو ظالم سے اب بھی نفرت ہے 

شوق اکبرؑ کو ہے شہادت کا 

بیاہ کی ماں کے دل میں حسرت ہے 

خوب اکبرؑ کو دیکھ لو لیلیٰؑ

صرف اک شب کی اور مہلت ہے 

لاش اکبرؑ پہ چپ کھڑے ہیں حسینؑ

دل کی لیکن عجیب حالت ہے 

دے رہا ہے صدا گلوئے صغیر 

دست ظالم میں کتنی طاقت ہے 

مسکرا کر جواب تیر دیا 

ایک بچے میں اتنی ہمت ہے

قبر اصغرؑ سے کہہ رہے تھے حسینؑ

لے زمیں یہ تیری امانت ہے 

سر جھکاتے نہیں ہیں آل نبیؐ 

سر کٹانے کی ان کو عادت ہے 

شامیو! کس کو کر رہے ہو اسیر؟ 

یہ تمہارے نبیﷺ کی عزت ہے 

خالی جھولا جھلا رہی ہے ماں 

علی اصغرؑ تیری ضرورت ہے 

رات دن ہو رہا ہے ذکر حسینؑ

بس اسی مشغلے میں عزت ہے


عزت لکھنوی 

No comments:

Post a Comment