عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ عقیدہ نہیں حقیقت ہے
کربلا پھر تیری ضرورت ہے
کربلا پھر تیری ضرورت ہے
دین کے نام پر سیاست ہے
غضب حق کا ہے سلسلہ جاری
غور کیجیے وہی علامت ہے
سر ابھارا ہے پھر یزیدوں نے
کربلا وقت کی ضرورت ہے
یہ عبادت یہ مسجدوں میں اذاں
جہد شبیرؑ کی بدولت ہے
غم دوراں سے مل گئی فرصت
غم سرور عظیم نعمت ہے
وقت کے مصطفیٰ ہیں سبط نبی
یہ جو کہہ دیں وہی شریعت ہے
کس کو ہے کربلا سے کتنا لگاؤ
اب یہ معیار آدمیت ہے
کہتے کہتے گزر گئیں صدیاں
ہم کو ظالم سے اب بھی نفرت ہے
شوق اکبرؑ کو ہے شہادت کا
بیاہ کی ماں کے دل میں حسرت ہے
خوب اکبرؑ کو دیکھ لو لیلیٰؑ
صرف اک شب کی اور مہلت ہے
لاش اکبرؑ پہ چپ کھڑے ہیں حسینؑ
دل کی لیکن عجیب حالت ہے
دے رہا ہے صدا گلوئے صغیر
دست ظالم میں کتنی طاقت ہے
مسکرا کر جواب تیر دیا
ایک بچے میں اتنی ہمت ہے
قبر اصغرؑ سے کہہ رہے تھے حسینؑ
لے زمیں یہ تیری امانت ہے
سر جھکاتے نہیں ہیں آل نبیؐ
سر کٹانے کی ان کو عادت ہے
شامیو! کس کو کر رہے ہو اسیر؟
یہ تمہارے نبیﷺ کی عزت ہے
خالی جھولا جھلا رہی ہے ماں
علی اصغرؑ تیری ضرورت ہے
رات دن ہو رہا ہے ذکر حسینؑ
بس اسی مشغلے میں عزت ہے
عزت لکھنوی
No comments:
Post a Comment