Monday 17 June 2024

حسین کیا ہے حسین ابن علی ہے تسکین فاطمہ ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حسینؑ کیا ہے حسینؑ ابنِ علیؑ ہے تسکینِ فاطمہؑ ہے

حسینؑ من منی رسولؐ بولے، حسینؑ تحسینِ مجتبیٰؐ ہے

حسینؑ اہل حرم کو لےکر، حرم سے نکلے تھے کربلا کو

بقائے ملت بغرضِ دینِ مبین نکلا یہ قافلہ ہے

چراغ گرچہ بُجھا دیا تھا مگر بہتّر یہ جانتے تھے

چراغِ آلِؑ رسولؐ ہیں وہ، حسینؑ مظلومِ کربلا ہے

یزید ظلم و جفا کا پیکر، حسینؑ تصویرِ امنِ عامہ

یزید فاجر یزید فاسق، حسینؑ مظلوم کی نوا ہے

حسینؑ منشائے رب کی خاطر تڑپتے اصغرؑ کو بھی لٹائے

حسینؑ اکبرؑ، حسینؑ قاسمؑ، حسینؑ عباسِؑ با وفا ہے

حسینؑ تپتی زمین پہ تُو نے جو حق کا سجدہ ادا کیا تھا

گواہ عرشِ علیٰ تھا اس دن، حسینؑ تفسیرِ انّما ہے

یہ جو اذانیں بلند ہوتی سنائی جو تم کو دے رہی ہیں

یزید ہوتا تو کچھ نہ رہتا، حسینؑ نکلا تو سب بچا ہے

حسینؑ ملت، حسینؑ مذہب، حسینؑ مسلک سے بالاتر ہے

حسینؑ کشتی نجات کی ہے جو اس میں بیٹھا وہ بچ گیا ہے

بھلا زمانے کے لاکھ دُکھ ہوں، حسینؑ اک تیرا غم الگ ہے

کہ تیرے غم میں زمانے بھر کے غموں کو مجھ نے بُھلا دیا ہے

تمہاری مظلومیت پہ ماتم کُناں ہے سارا جہان مولا

بتولؑ نے جو خدا سے مانگا تمہاری عظمت کا واسطہ ہے

یہ ہاتھ خود یا حسینؑ کہہ یہ اشک بھی وا حسینؑ کہہ کر

یہ ہاتھ سینے سے لگ رہا ہے تو اشک پلکوں سے بہہ رہا ہے

حسینؑ ہر ظلم و بربریت پر ایک ظالم سے پنجہ کش ہے

کہ یاد رکھو حسینؑ کا سر جُھکا نہیں ہے وہ کٹ گیا ہے

حسینؑ معنائے حُرّیت ہے، حسینؑ ظُلمت سے ہے بغاوت

حسینؑ مظہر ہے کِبریا کا، یزید ابلیس کی خطا ہے

بروز محشر حضورِ یزداں گواہی دے گا مِرا تخیل

حسینؑ سوچا، حسینؑ لکھا، حسینؑ پر ہی سخن کہا ہے

میں اس کے اُجڑے ہوئے گھرانے کا ایک نوکر ہوں ایک شاعر

مِرے گھرانے کو آج راشن اسی گھرانے سے مل رہا ہے

بروز عاشور کربلا میں ضیاء جو محشر بپا ہوا تھا

حسینؑ سرِّ بیانِ ذبحِ عظیم بن کر امر ہوا ہے


ضیاء بلتستانی

No comments:

Post a Comment