عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تاریخ ظلم لکھ کہ رہے یہ بھی یادگار
اشکِ غمِ حسینؑ سے دل کا دھلے غبار
سینہ زنی سے چاک گریباں ہو تار تار
جان نبیﷺ کے غم میں نہ دل کو رہے قرار
اس داستانِ غم کے بیاں میں وہ زور ہو
آہ و فغاں کا گنجِ شہیداں میں شور ہو
سادات بھوکے پیاسے تھے عشرہ کا روز تھا
ہر شخص تھا حسینؑ کے غم میں برہنہ پا
پڑھتا تھا کوئی نوحہ کوئی کرتا تھا بکا
اس وقت ظلم کی ہوئی، ناگاہ ابتدا
فطری حسد نے عقل کچھ ایسی بگاڑ دی
تخریب کار قوم نے بستی اجاڑ دی
تھے سب وہ گلبدن چمن مصطفیٰﷺ کے پھول
ان کا لہو بہا کے، عمل ہو گا کچھ قبول
پهر کیا کہو گے حشر میں پوچھیں گی گر بتول
کیوں مارا بے گناہوں کو اے فرقہ جہول
روز جزا جو حق کی عدالت میں جاؤ گے
جس کے ہو کلمہ گو اسے کیا منہ دکھاؤ گے
حق کے عزیز، یوسفِ یثرب کے جاں نثار
ایماں کی اصل، صاحب دیں، فخرِ روزگار
ایسے کریم بخش دیں اونٹوں کی جو قطار
نازل ہوئے ہیں مدح میں آئے بہ افتخار
احمدﷺ بہ فیض حق، جو حبیب خدا ہوئے
حیدرؑ بھی دو جہاں کے مشکل کشا ہوئے
فیض بھرتپوری
No comments:
Post a Comment