Wednesday, 14 August 2024

دیس پردیس میں رلتے ہوئے گڑیاؤں کے بابا جانی

 دیس پردیس میں رُلتے ہوئے گُڑیاؤں کے بابا جانی

ہاتھ پتھر کے ہوئے ایسے جگہ باقی نہیں چھالوں کو

نیند کے نام پہ کُچھ کروٹیں لے پاتے ہیں

کِتنا ہنستے ہیں یہ باسی لطیفے سُن کر

وقت بے وقت نمی رہتی ہے کیوں آنکھوں میں

میلا بستر ہو، یا بِکھرا ہوا کمرہ ہو

اِن کو دِکھتا ہی نہیں پاس کا منظر کوئی

بات بیٹی سے ہو بیٹے سے ہو یا بیوی سے

حال ماں پُوچھے یا باپ کا فُون آئے کبھی

ایسے بنتے ہیں کہ جنت میں ہو جیسے کوئی

ایک ہی فِکر کہ گھر والے سبھی

عید کا چاند خوشی سے دیکھیں

راحتیں گھیر کے لے آتے ہیں لیکن عابی

کِتنا رُلتے ہیں یہ گُڑیاؤں کے بابا جانی

چاند رو پڑتا ہے جب عید کہیں ہوتی ہے 

اِن کا دُکھ بانٹنے چلتی ہیں ہوائیں نَم نَم

آسماں پیار سے برساتا ہے ٹھنڈی شبنم

نظم شاعر پہ اُترتی ہے دِلاسہ بن کر 

وقت کٹ جائے گا تُم لوٹ کے پھر آؤ گے 

ہاں یہاں ٹھیک ہے سب حوصلہ رکھنا قائم

عمر اِک اور بھی دی جائے گی، پِھر جی لینا

آنکھ بھر آئے تو پھر آنکھ چُرانا بہتر

اپنے ناسُور کو دُنیا سے چُھپانا بہتر


عابی مکھنوی


No comments:

Post a Comment