Wednesday 14 August 2024

کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ

 کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ

اپنے شہر کی مٹی بھی سامان میں رکھ

سارے جسم کو لے کر گھوم زمانے میں

بس اک دل کی دھڑکن پاکستان میں رکھ

جانے کس رستے سے کِرنیں آ جائیں

دل دہلیز پہ، آنکھیں روشندان میں رکھ

جھیل میں اک مہتاب ضروری ہوتا ہے

کوئی تمنّا اس چشمِ حیران میں رکھ

ہم سے شرط لگانے کی اک صُورت ہے

اپنے سارے خواب یہاں میدان میں رکھ

جب بھی چاہوں تیرا چہرہ سوچ سکوں

بس اتنی سی بات مِرے امکان میں رکھ

تِتلی رستہ بھُول کے آ بھی سکتی ہے

کاغذ کے یہ پھُول ابھی گُلدان میں رکھ

اپنے دل سے رُسوائی کا خوف نکال

اظہر اب تصویر مِری دالان میں رکھ


اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment