کل پردیس میں یاد آئے گی دھیان میں رکھ
اپنے شہر کی مٹی بھی سامان میں رکھ
سارے جسم کو لے کر گھوم زمانے میں
بس اک دل کی دھڑکن پاکستان میں رکھ
جانے کس رستے سے کِرنیں آ جائیں
دل دہلیز پہ، آنکھیں روشندان میں رکھ
جھیل میں اک مہتاب ضروری ہوتا ہے
کوئی تمنّا اس چشمِ حیران میں رکھ
ہم سے شرط لگانے کی اک صُورت ہے
اپنے سارے خواب یہاں میدان میں رکھ
جب بھی چاہوں تیرا چہرہ سوچ سکوں
بس اتنی سی بات مِرے امکان میں رکھ
تِتلی رستہ بھُول کے آ بھی سکتی ہے
کاغذ کے یہ پھُول ابھی گُلدان میں رکھ
اپنے دل سے رُسوائی کا خوف نکال
اظہر اب تصویر مِری دالان میں رکھ
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment