Wednesday 14 August 2024

پردیس جانے والے اب لوٹ کے بھی آ جا

 پردیس جانے والے اب لوٹ کے بھی آ جا

کہ بجھ نہ جائے یوں ہی چراغ زندگی کا

برسوں سے میری آنکھیں راہ تک رہی ہیں تیرا

دل رکھ دیا ہے راہ میں، تحفہ ہے یہ ذرا سا

کس کو سناؤں ہجر مسلسل کی یہ کہانی

کچھ آ کے میری سن لے، اپنی مجھے سنا جا

اس برس بھی گزاری ہے عید بن تمہارے

مرنے سے پہلے اک دن آ کے گلے لگا جا

کتنے ہی خواب میرے دل میں رہے ادھورے

فرقت کی تیرگی میں اک دیپ ہی جلا جا

ہوتی ہے کیا جدائی، ہر کوئی یہ نہ جانے

یہ درد ہے انوکھا، یہ درد ہے بلا کا

کیسے بھلاؤں خالد لمحے فراق دل کے

جاں ہی نکل گئی تھی جب وہ جدا ہوا تھا


خالد محمود

No comments:

Post a Comment