عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اور اِس سے قبل کہ حرفِ یقیں گماں ہو جائے
تِری نظر کی طلب ہے،۔اگر یہاں ہو جائے
یہ وہ کمال نہیں ہے،۔ زوال ہو جس کو
یہ وہ چراغ نہیں ہے کہ جو دھواں ہو جائے
یہ میرا دل ہے، گلستاں بھی اِس میں، صحرا بھی
یہ تیری بارشِ رحمت پہ ہے، جہاں ہو جائے
یہ جسم، نام و نسب کو اٹھائے پھرتا ہے
کمال ہو، تِرے قدموں میں بے نشاں ہو جائے
یہ ایک تار مِری دسترس میں باقی ہے
گر اُس نگاہ کی وسعت سے بادباں ہوجائے
بحال رکھ مجھے اِس چاک پر، مِرے خالق
یہی نہ ہو کہ مِری خاک رائیگاں ہو جائے
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment