Thursday, 22 August 2024

جبین انجم و ماہتاب جس بندے نے کی روشن

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جبینِ انجم و ماہتاب جس بندے نے کی روشن

اسی کے  ذکر سے ہوتا ہے ذہن آدمی روشن

اُدھر اُس نور پیکر نے فقط جھاڑا تھا دامن کو

اِدھر مٹی پہ خود ہونے لگے تارے کئی روشن

ہمارے پاس اک ایسا دُعاؤں کا صحیفہ ہے

دلوں کے ساتھ جو کر دے خِرد کی ہر گلی روشن

یہاں شمس و قمر ہوتے ہوئے ہر سو اندھیرا تھا

قدم ان کے پڑے اور ساری دنیا ہو گئی روشن

بہتّر سُورجوں کی روشنی دب جاتی مقتل میں

کسی بیمار کی ہوتی نہیں گر ہتھکڑی روشن

سرِ دربار وہ قیدی اگر خاموش رہ جاتا

حقیقت ظُلم کی ہم پر نہیں ہوتی کبھی روشن

اجالے اس کو دیتے ہیں سند روشن خیالی کی

ہوا کے سامنے شمع یقیں جس نے رکھی روشن

جبیں سے پہلے دل اور فکر کا سجدہ ضروری ہے

یہ خِطہ رُوح کا توحید سے ہو گا تبھی روشن

اسی کے گرد بیٹھے ہیں ازل سے کتنے پروانے

وہ شمع عشق جو بجھ کر سلیقے سے ہوئی روشن

مِرے مولیٰؑ نے جس شب میں چراغوں کو بُجھایا تھا

حقیقت میں اسی شب میں ہوئی ہے روشنی روشن

جسے خاموش رکھنے پر بضد طوفانِ بیعت تھا

نِدامت کی ہوا وہ اک دِیا کرنے لگی روشن

اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں، نزدیک سے دیکھو

یہ دُنیا دُور سے ہی صرف لگتی ہے بڑی روشن


ندیم سرسوی

No comments:

Post a Comment