Monday 23 November 2020

دنیا تو رکھ چکی تھی کہیں مجھ کو کھیل کر

 دنیا تو رکھ چکی تھی کہیں مجھ کو کھیل کر

لایا ہوں اس مقام پہ خود کو دھکیل کر

دل کو ابھی تو گردشِ دوراں سے مت ڈرا

سہما ہوا ہے ہجر کے صدمات جھیل کر

غم کا رگیدنا بھی بجا ہے، پہ اس جگہ

پہنچا ہوں پتھروں کو میں رستے کے بیل کر

تیرے تو ہاتھ میں ہے مصور یہ شعبدہ

پٹڑی دِکھا مکان میں، کمرے کو ریل کر


قیس آروی

ضمیرالحق

No comments:

Post a Comment