Monday 23 November 2020

پیام قضا

 بادگیر سے جھانکتا پیامِ قضا


آج کی شب ایک فائل کھوجتے

برسوں بند پڑے دراز کو ٹٹولتے ہوئے

میرے ہاتھ دیمک لگی اک تصویر پرانی لگی

اور یکدم نیم روشن کمرے کی وسعت سمٹ کر

مجھے شکستہ دیواروں میں جکڑنے لگی


پُرپیچ ڈوریوں کے جھرمٹ میں میری تنہائی

مجھے لمحہ بہ لمحہ قتل کرنے پہ اتر آئی

انفس و آفاق کے درمیان پھیلی دنیا

میرے حال سے ناواقف رہی

حبس اور گھٹن کا یہ عالم رہا کہ جیسے کسی نے 

زندان کے روزن پر گہری تاریکی کا قفل لگا کر 

مجھے کسی زبوں حال قبر میں زندہ ہی گاڑ دیا ہو

درد کی ایک کسک کے ساتھ میں نے

تصویر کے اوپر گرد کی رِدا ہٹا کر پژمردہ آنکھوں سے

دیکھا تو معنی خیز نگاہوں سے گھورتا وہ شخص

ایک مجسمہ بنے ہوئے

میری زندگی کی معیاد ختم ہونے پر 

بے ساختہ ہنسی کی گونج کے ساتھ

میری بدلتی حیات کی رُت پر جشن مناتے ہوئے

چلتی ہوا اور گزرتے موسموں سا اوجھل ہونے لگا

اور میرا وجود دکھ کی بھٹی میں تپ کر

موم کی مانند پگھلتا ہوا کس سمت کو بہہ نکلا 

یہ میں نہ جان سکی


ماہم کامران

No comments:

Post a Comment