Monday 23 November 2020

فرض کرو تم اس مرد کا چابک ہو

 جج صاحب کا وقفہ برائے نیند


فرض کرو

تم اس مرد کا چابک ہو

جو بھیڑوں کو

خشک سالی کی طرف ہانکتا رہا


فرض کرو

تم اس عورت کے چہرے کا نیل ہو

جس کا نام سمندر تھا


فرض کرو

تم اس لڑکی کا دردِ زہ ہو

جس نے ایک گالی کو جنما


فرض کرو

تم وہ زنجیر ہو

جس سے ایک دس سالہ کونپل

اسی سالہ برگد سے

باندھی جائے


فرض کرو

تم وہ ازار بند ہو

جو تنہائی ملتے ہی

کھل جاتا ہو


فرض کرو

تم وہ کھڑکی ہو

جس نے تمہارے اندر بسنے والی

آوازیں

ہجوم تک پہنچائیں


فرض کرو

تم وہ فِرقہ ہو

جو ہجوم کے پیروں تلے آ کر

مسلا گیا

فرض کرو تم جائے وقوعہ ہو


سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment