جج صاحب کا وقفہ برائے نیند
فرض کرو
تم اس مرد کا چابک ہو
جو بھیڑوں کو
خشک سالی کی طرف ہانکتا رہا
فرض کرو
تم اس عورت کے چہرے کا نیل ہو
جس کا نام سمندر تھا
فرض کرو
تم اس لڑکی کا دردِ زہ ہو
جس نے ایک گالی کو جنما
فرض کرو
تم وہ زنجیر ہو
جس سے ایک دس سالہ کونپل
اسی سالہ برگد سے
باندھی جائے
فرض کرو
تم وہ ازار بند ہو
جو تنہائی ملتے ہی
کھل جاتا ہو
فرض کرو
تم وہ کھڑکی ہو
جس نے تمہارے اندر بسنے والی
آوازیں
ہجوم تک پہنچائیں
فرض کرو
تم وہ فِرقہ ہو
جو ہجوم کے پیروں تلے آ کر
مسلا گیا
فرض کرو تم جائے وقوعہ ہو
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment