یہ بھوک ہے
یہ تشنگی نہیں ہے یا خدا
یہ بھوک ہے
یہ چار سُو جو کھیل ہے
یہ آگ ہے
جو بستیوں میں دردِ دل کے واسطے
خلیفہ کہہ کے تُو نے خلق کر دئیے تھے
کیا وہ خاک ہے
مرے خدا
عجیب ہے غریب کا کوئی خدا کہیں پہ سُن نہیں رہا
جو بیٹیوں کو چین سے سُلا سکے
کہیں پہ تُو کہانی کوئی ایسی بُن نہیں رہا
عجیب ہے
عجیب ہے میں کان، آنکھ، ناک بند کر کے بھی
چہار سمت سے نہیں گزر رہی
کہیں پہ چادریں، کہیں بدن، کہیں پہ
لفظ بھی نہیں تو کیا کسر رہی
یہ آگ کا تماشہ میری بیٹیوں کو زندگی
میں زندگی کا کوئی ایک راستہ بھی دے نہیں رہا، فقط
دہلتی، دلگداز، دل شکستہ کچھ کہانیوں کے نقش گر
میں تجھ سے کہہ نہیں رہی
میں ان سے کہہ نہیں رہی
مگر مرے بیان میں سکت نہیں
میں اور اس جہان میں نظر بچا کے چل سکوں
میں داستاں کے اس ورق کو
کس خدا کے رو برو کروں کہ
میری تاب اس سے زیادہ سہہ نہیں رہی
عجیب ہے
مرے خدا عجیب ہے
فاطمہ مہرو
No comments:
Post a Comment