Tuesday 24 November 2020

لعنت سبھی منحنی دیوتاؤں پہ نقلی خداؤں پہ

 لعنت


لعنت سبھی منحنی دیوتاؤں پہ

نقلی خداؤں پہ

لعنت ہے ماتھا رگڑنے کے کارِ مسلسل پہ

بس اک نشاں ڈالنا جس کا مقصود ہے

اور لعنت ہے باسی دماغوں کی بوسیدگی پہ

کہ جو مسکراہٹ کے سائے میں

احساں جتاتے ہیں


لعنت ہے اس آکسیجن سلنڈر پہ

جس کے لیے قتل کرنا پڑے

چند سانسوں کے قرضے میں

دفنائے جانے کی اس منتظر قوم کو

وینٹی لیٹر کہاں سے ملے گا

کہ وہ تو کہیں چھپ کے بیٹھا

کسی منحنی دیوتا کے لیے منتظر ہے

کہیں پھیپھڑے آکسیجن کو ترسیں تو کام آ سکے

منحنی دیوتا لاکھ لعنت کے حقدار ٹھہرے ہیں


لعنت ہو جس جس نے دھرتی کو کھایا ہے

ان کے دماغوں پہ لعنت ہے

جو شک کے دریا میں بہتے ہیں

دشنام کرتے ہیں اپنے مسیحاؤں کو

اورسمجھتے ہیں جیسے شفاخانے مقتل ہیں


لعنت ہے ان پہ

مسیحا کی نیت پہ جن کو بھروسہ نہیں اور

لعنت ہے اس نسلِ بدکار پر

جو کہ مقتل کے باہر کھڑی

پلازما بیچتی ہے

اور اس پہ بھی

جو عام انساں کو انساں نہ سمجھے

سو لعنت ہے چارٹر جہازوں کے

بے حِس مسافر پہ

لعنت بلڈی سویلین پہ

ہے لعنت سبھی پہ


ثاقب ندیم

No comments:

Post a Comment