وینٹی لیٹر پر کینڈل لائٹ ڈنر
وقت تمہاری آنکھوں میں
خوف کا نقطہ بن کر ٹھہر جائے گا
مگر میری سانسوں کی ململ پر
زندگی نیا پھول نہیں کاڑھ سکے گی
ہمارے ہاتھ آخری بوسے کے منتظر رہیں گے
جیسے دھول کے بعد بڑی دیر تک
کچھ دکھائی نہیں دیتا
تم میرا چہرہ ڈھونڈتے رہو گے
دھاگے اچانک ختم ہوتے ہیں
کمرہ، فرنیچر، کتابیں، الماریاں
سب کچھ بدلا جا سکتا ہے
مگر ہمارے بیچ کا رشتہ
مصر کے کسی بازار میں نہیں ملے گا
میں موت کی چپلیں پہن کر
ان آوازوں سے بہت دور جا چکی ہوں گی
جو مجھے دیکھ کر پھول بن جاتی ہیں
اور خوشبو کے راستے میں
میرا مکان آئے گا
تم کبھی کبھی سفید بالوں کی چاندنی گرانے
میرے اندھیروں پر ضرور آنا
میں پتھر کی کتاب پر
تمہارے نام کے دستخط مدھم ہوتے دیکھ کر
روتے ہوئے مسکراؤں گی
تم میری ہنسی کی بالیاں
اس عورت کو پہنا دینا
جس کے ہونٹ تمہارے سینے پر دمک رہے ہیں
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment