Tuesday 24 November 2020

مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

 مجھے مرد اچھے لگتے ہیں


مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

جنگجو، بہادر

اور میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ دکھانے والے

وحشی گھوڑوں

اور اپنی رانوں کی بے قابو طاقت کو

لگام ڈالنے والے


مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

درویش، فقیر، سالک

جوگی، سادھو اور ناتھ

راہِ سلوک کے مسافر اور نیک دل شاعر

بھیگے ہوئے دلوں والے نغمہ گر

مصور اور نے نواز، معلم اور متعلم

جن کی نگاہیں پرانے رازوں

اور دل مدفون خزانوں جیسے ہوتے ہیں

مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

اپنے باپ جیسے خوبصورت اور نفیس

ملائم اور کھردرے

جو موپساں، ہیرلڈ لیم اور شرر کو

اپنے دوہرے دھسے کے حجرے میں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں

اور بظاہر نہایت غیر ادبی زندگی گزارتے ہیں

مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

جنگ ناموں، مثنویوں اور طلسمی کہانیوں کے

کرداروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے

الف لیلہ کے ابوالحسن اور سندباد جہازی جیسے

سر پھرے اور دیوانے

پہلے پہر کی رات کے خواب جیسے قیمتی اور بردبار

بغداد کی گلیوں کی طرح پراسرار

اور مزاروں جیسے پر شکوہ مگر خاموش

جن کے کندھوں پر بیٹھ کر چھوٹی چڑیاں

بے فکری سے دانا چگتی ہیں

اور صوفی کبوتر غٹرغوں کرتے ہیں

جو شہرزاد کی کہانیوں کو جیب میں رکھے رکھے

نیند کے گھونٹ بھرتے رہتے ہیں

مگر سوتے نہیں

جو ظالم جن کی قید سے

قاف کی پری آزاد کرانے کے لیے

مسافتیں مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں

جن کی تلواریں تیز اور چمکیلی ہوتی ہیں

اور نگاہ نرم و ملائم

مجھے مرد اچھے لگتے ہیں

جو ننھے بچوں، متروک بوڑھوں

اور پرانے درختوں، پرندوں

جھاڑیوں اور برگدوں جیسی

عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں

اور جتائے بغیر ان سے محبت کرتے ہیں


بشریٰ اعجاز

No comments:

Post a Comment