Tuesday 24 November 2020

پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا

 پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا

تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا

خاک کا سا ڈھیر سر رہ ہوں میں

قافلۂ عمر سفر کر گیا

خلد بریں اس کی ہے واں بود و باش

یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا

چھپ کے ترے کوچہ سے گزرا میں لیک

نالہ اک عالم کو خبر کر گیا

جوں شرر کاغذ آتش زدہ

شام غم اپنی میں سحر کر گیا

تا بہ فلک نالہ تو پہنچا تھا رات

میں ہی کچھ اللہ کا ڈر کر گیا

پوچھ نہ قائم کی کٹی کیونکہ عمر

جوں ہوا یک چند بسر کر گیا


قائم چاند پوری

No comments:

Post a Comment