Monday 23 November 2020

گزر کے دیکھ لیا ہے حد ملال سے بھی

 گزر کے دیکھ لیا ہے حد ملال سے بھی

کہ جی رہے ہیں بچھڑ کر ترے خیال سے بھی

زمانے تو نے یہ کیسا مجھے تراش دیا

مرا وجود تو باہر تھا ہر مثال سے بھی

میں بے نیاز ہوں خود عکس شیشۂ دل سے

کہ ٹوٹ جاتا ہے اکثر یہ دیکھ بھال سے بھی

گرفتِ خواب سے نکلا تو یہ کھلا مجھ پر

ہماری جنگ تو جاری ہے ماہ و سال سے بھی

ہوائے مرکزۂ ہجر اب کے ایسا ہو

حکایت اپنی لکھے تو زر وصال سے بھی

میں زندگی تری بنیاد جانتا ہوں، مگر

تُو منکشف ہو کبھی اپنے خدوخال سے بھی


غضنفر ہاشمی

No comments:

Post a Comment