گزر کے دیکھ لیا ہے حد ملال سے بھی
کہ جی رہے ہیں بچھڑ کر ترے خیال سے بھی
زمانے تو نے یہ کیسا مجھے تراش دیا
مرا وجود تو باہر تھا ہر مثال سے بھی
میں بے نیاز ہوں خود عکس شیشۂ دل سے
کہ ٹوٹ جاتا ہے اکثر یہ دیکھ بھال سے بھی
گرفتِ خواب سے نکلا تو یہ کھلا مجھ پر
ہماری جنگ تو جاری ہے ماہ و سال سے بھی
ہوائے مرکزۂ ہجر اب کے ایسا ہو
حکایت اپنی لکھے تو زر وصال سے بھی
میں زندگی تری بنیاد جانتا ہوں، مگر
تُو منکشف ہو کبھی اپنے خدوخال سے بھی
غضنفر ہاشمی
No comments:
Post a Comment