Sunday 22 November 2020

انتظار یار کا فائدہ اٹھاؤں گا

 انتظارِ یار کا فائدہ اٹھاؤں گا

راستے میں بیٹھ کر راستہ دکھاؤں گا

یادِ رفتگاں لیے، مبتلائے کشمکش

خط چھپا لیے گئے، غم کہاں چھپاؤں گا

اک شعورِ یاوری، لا شعور میں ملا

ایک پھول کے لیے گلستاں سجاؤں گا

عشق کی حدود میں آ گیا ہوں میں سو اب

زندگی کو چھوڑ کر بندگی بچاؤں گا

خودکشی کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں

ہر اداس فرد کو بارہا بتاؤں گا

اپنے سامعین کو اک غزل کے بعد میں

سوگوار آنکھوں کا مرثیہ سناؤں گا

کچھ کشید کر کے فرصتیں فراقِ یار سے

پہلے خلقتِ خدا، پھر خدا مناؤں گا

دو الگ مزاج ہیں کام مختلف خلیل

آندھیوں کو تُو بلا، میں دیئے جلاؤں گا


خلیل حسین بلوچ

No comments:

Post a Comment