ہمارے دل میں تو ساری دنیا کا یارا غم ہے
تمہارا غم کیا، تمہارا غم تو تمہارا غم ہے
خوشی کے موقعے پہ میری غزلیں کبھی نہ پڑھنا
کہ میرے شعروں میں یار سارے کا سارا غم ہے
نہ چاندنی سے نہ روشنی سے ہے مجھ کو مطلب
تمہاری فرقت میں چاند غم ہے ستارا غم ہے
یہ کھائیں گے غم، پئیں گے آنسو جئیں گے یونہی
غموں کے ماروں کا ایک ہی تو سہارا غم ہے
بھلا دیں اس کو، گلے لگائیں، ہماری مرضی
یہ مسئلہ تو نہیں تمہارا، ہمارا غم ہے
تمہاری آنکھوں سے جب یہ چھلکے تو بات تب ہے
وگرنہ، غم یہ بڑا ہی قسمت کا مارا غم ہے
کسی پہ بھی یہ نہیں کھلے گا ، چھپا رہے گا
تمہارا غم ہے سو مجھ کو جاں سے بھی پیارا غم ہے
ناہید اختر بلوچ
No comments:
Post a Comment