Sunday 22 November 2020

نظام دل میں کہیں بے دلی رکی ہوئی ہے

 نظامِ دل میں کہیں بے دِلی رکی ہوئی ہے

ہنسی سجائی گئی ہے خوشی رکی ہوئی ہے

ابھی بھی اس سے تعلق تو ہے مگر ایسا

ہوا چلی بھی کبھی تو لگی رکی ہوئی ہے

مٹے ہوئے ہیں خدوخال جھیل کے پھر بھی

کہیں کہیں پہ تو اب تک نمی رکی ہوئی ہے

سبھی کو جلدی ہے سبقت کی ایک دوسرے پر

سبک روی ہے، مگر زندگی رکی ہوئی ہے

بہانہ ڈھونڈتے ہیں اختلاف کا ہم سب

نفاق بڑھ رہا ہے، دوستی رکی ہوئی ہے

بھرا ہے وقت نے ہر زخم فائدے سے مگر

مرے وجود میں تیری کمی رکی ہوئی ہے

نشاطِ حسن سے لبریز ہوں بظاہر میں

شمارِ شوق میں تشنہ لبی رکی ہوئی ہے


اجمل فرید

No comments:

Post a Comment