Sunday 22 November 2020

تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی

 تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی


میں نے

اپنے حصے کا بادل چرانا

تم نے

چھتری بنانا سیکھ لیا ہے

رستہ بنانا گندم اگانے جیسا ہے

خاندان کا بوجھ پپوٹوں پر الکحل کی طرح عمل کرتا ہے

میں شاعر بن جاتا ہوں

تم خاندان بنتی ہو

ایسے ہم دونوں اپنے اپنے رستوں سے بھوک بنانا سیکھتے ہیں

قسمت بنانا خدا کا کام ہے

خدا اپنے کاموں کے لیے پیغمبر بناتا ہے

پیغمبر قسمت نہیں بنا سکتے

اور خدا بنانے کی سزا موت ہے

ہمارے رستوں میں بہت سے قبرستان پڑتے ہیں

ہم پھول بنانا

ان پرندوں سے پہلے سیکھ جاتے ہیں

جنہیں بے گھری کی

خوفزدہ اڑان سے بچانے کے لیے

پنجرہ بنانا ہم نے اپنے بچپن میں سیکھا تھا

چرائے ہوئے بادل سے بارش برسانا

میری قسمت میں نہیں لکھا

چھتری کھول کے قسمت بدلنا

تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی


صدیق شاہد

No comments:

Post a Comment