تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی
میں نے
اپنے حصے کا بادل چرانا
تم نے
چھتری بنانا سیکھ لیا ہے
رستہ بنانا گندم اگانے جیسا ہے
خاندان کا بوجھ پپوٹوں پر الکحل کی طرح عمل کرتا ہے
میں شاعر بن جاتا ہوں
تم خاندان بنتی ہو
ایسے ہم دونوں اپنے اپنے رستوں سے بھوک بنانا سیکھتے ہیں
قسمت بنانا خدا کا کام ہے
خدا اپنے کاموں کے لیے پیغمبر بناتا ہے
پیغمبر قسمت نہیں بنا سکتے
اور خدا بنانے کی سزا موت ہے
ہمارے رستوں میں بہت سے قبرستان پڑتے ہیں
ہم پھول بنانا
ان پرندوں سے پہلے سیکھ جاتے ہیں
جنہیں بے گھری کی
خوفزدہ اڑان سے بچانے کے لیے
پنجرہ بنانا ہم نے اپنے بچپن میں سیکھا تھا
چرائے ہوئے بادل سے بارش برسانا
میری قسمت میں نہیں لکھا
چھتری کھول کے قسمت بدلنا
تم کبھی سیکھ نہیں پاؤ گی
صدیق شاہد
No comments:
Post a Comment