Wednesday 25 November 2020

آ کے بیٹھا ہوں کہاں شام سے کچھ یاد نہیں

 آ کے بیٹھا ہوں کہاں شام سے کچھ یاد نہیں

گھر سے نکلا تھا میں کس کام سے کچھ یاد نہیں

میری صورت کا کوئی شخص تو تھا دنیا میں

کون زندہ تھا مرے نام سے؟ کچھ یاد نہیں

یہ ہُوا ہے کہ سماعت کو بچا لایا ہوں

جشن کے شور یا کہرام سے کچھ یاد نہیں

زندگی میں نے بہرحال گزاری، لیکن

اک اذیت سے کہ آرام سے کچھ یاد نہیں

عمر بھر جس کے اجالے میں نہاتا رہا میں

چاند اترا تھا وہ کس بام سے کچھ یاد نہیں

کیا دیا عادتِ آوارگئ شب نے مجھے

کیا ملا کوچۂ بدنام سے کچھ یاد نہیں


احمد امتیاز

No comments:

Post a Comment