Wednesday 25 November 2020

جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا

 جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا

تاریک شب کے سینے میں خنجر اتر گیا

جب سب پہ بند تھے مری آنکھوں کے راستے

پھر کیسے کوئی جسم کے اندر اتر گیا

ساحل پہ ڈر گیا تھا میں لہروں کو دیکھ کر

جب غوطہ زن ہوا تو سمندر اتر گیا

اک بھی لکیر ہاتھ پہ باقی نہیں رہی

دست طلب سے نقش مقدر اتر گیا

وہ آئینہ کے سامنے کیا رونما ہوئے

سادہ ورق کے رنگ کا منظر اتر گیا

چہرے کی تیز دھار بھی بے کار ہو گئی

جب چشمِ‌ آب دار سے جوہر اتر گیا

کس درجہ دل فریب تھی دانے کی شکل بھی

پنچھی ہرے شجر سے زمیں پر اتر گیا


صدیق افغانی

No comments:

Post a Comment