جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا
تاریک شب کے سینے میں خنجر اتر گیا
جب سب پہ بند تھے مری آنکھوں کے راستے
پھر کیسے کوئی جسم کے اندر اتر گیا
ساحل پہ ڈر گیا تھا میں لہروں کو دیکھ کر
جب غوطہ زن ہوا تو سمندر اتر گیا
اک بھی لکیر ہاتھ پہ باقی نہیں رہی
دست طلب سے نقش مقدر اتر گیا
وہ آئینہ کے سامنے کیا رونما ہوئے
سادہ ورق کے رنگ کا منظر اتر گیا
چہرے کی تیز دھار بھی بے کار ہو گئی
جب چشمِ آب دار سے جوہر اتر گیا
کس درجہ دل فریب تھی دانے کی شکل بھی
پنچھی ہرے شجر سے زمیں پر اتر گیا
صدیق افغانی
No comments:
Post a Comment