سائے
اداس شہر کی گلیوں میں رقص کرتے ہیں
بلائیں لیتے ہیں آوارہ گرد خوابوں کی
دعائیں دیتے ہیں بچھڑے ہوؤں کو ملنے کی
سنوارتے ہیں خمِ گیسوئے تمنا کو
پکارتے ہیں کسی اجنبی مسیحا کو
سمیٹ لیتا ہے جب چاند اپنی کرنوں کو
تو دن کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں
یوں ہی ہمیشہ طلوع و غروب ہوتے ہیں
شہریار خان
No comments:
Post a Comment