اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
دل کے سوا کوئی نہ تھا سرمایہ اشک کا
حیراں ہوں کام آنکھوں کا جاری ہے کس طرح
عنصر ہے خیر و شر کا ہر اک شے میں یوں نہاں
ہر شمعِ بزم نوری و ناری ہے جس طرح
بس یوں سمجھ لو مجھ کو امیدِ سحر نہ تھی
کیا پوچھتے ہو رات گزاری ہے کس طرح
اس نقشِ مستقل پہ ہے شرمندہ آئینہ
تصویر ان کی دل پہ اتاری ہے اس طرح
ناطق جلال میں بھی اثر اس قدر نہیں
رعبِ جمال قلب پہ طاری ہے جس طرح
ناطق لکھنوی
No comments:
Post a Comment