زندگی
ریت، گرم ریت
میری مٹھی میں
ذرہ ذرہ پھسلتی ہے، بہت دیر کے بعد
اور ستم ہے کہ ہر اک ذرہ
دھیرے دھیرے سے میری آنکھ میں جا گرتا ہے
اور میں
ایک شجرِ لرزیدہ
اپنی شاخوں کو، پتوں کو
اور اثمار کو بھی
عمر بھر سینچتا، سنبھالتا
مصروف رہا
سب ہی موسم کے اثرات کو میں نے سہا
چپ چاپ سہا
درد کا ردِ عمل کیا ہے
کبھی سوچا ہی نہیں
انجام سفر کہکشاں کے جیسا ہو
سوچا ہی نہیں
آہ، مگر آج
جبکہ غم سہنے کی
مجھ میں ہمت نہ طاقت نہ برداشت رہی
سرد جھونکا بھی
میری دھڑکنوں کو جھلسائے
دھوپ کی ہلکی تمازت مجھے نڈھال کرے
میری ہر سانس کو ہلکان کرے
اور میری ناتواں جان کو
بے جان کرے
ہائے
اب آخری آغوش کی ضرورت ہے
اب تو یہ ریت، گرم ریت
میرے ہاتھ جلا بیٹھی ہے
آنکھ میں میری سمائی ہے میری مشت کی خاک
اور ہر سانس بغاوت سی کیا کرتی ہے
میرے سینے میں مچلتی ہے تڑپتی ہے گھبراتی ہے
آ، میری موت مجھے سینے سے لگا لے اپنے
ایسے جیسے کہ کوئی پیارا غمگسار دوست
گلے میں ڈال کر بانہیں غموں سے دور کرے
آ، میری موت مجھے سینے سے لگا لے اپنے
زبیدہ صابر
No comments:
Post a Comment