عکس نیلے نہیں
عکس نیلے نہیں
عکس رنگین ہیں
جرم آنکھوں کے کب اتنے سنگین ہیں
پردۂ عکس سے ایک نیلا تموّج جو بہنے لگے
کون سے راز کہنے لگے؟
خشک ہوتے گلے میں کیا گھلنے لگے؟
دل کی ہر ایک دھڑکن سماعت بنے
جسم کا رواں رواں بصارت میں کیسے ڈھلے
شہد آگیں زبانیں ہیں متلاشی کن ذائقوں کی
رگیں ساری کھنچنے لگیں
انگلیاں جستجو پر ہیں آمادہ
ہاتھ آسودگی کا پتا گر نہ پائیں
تو سب عکس بے سود ہیں
آخری منزلوں ہی سے پہلے مسافر
مسافر جو تھک جاتے ہیں
عکس جم جاتے ہیں
خار بن کر جو چبھنے لگیں
عکس آنکھوں میں تو
پردۂ عکس کو نوچیے
کوسیے اس گھڑی کو
بسر ہو گئی جو
بسر ہو گئی جو گناہ بے لذت کو چکھتے ہوئے
اگلی شب بکتے جھکتے ہوئے
پھر نئی آس پر
نیلے عکسوں کا جادو جگا دیکھیے
ہو سکے تو یہ عادت چھڑا دیکھیے
عارفہ شہزاد
No comments:
Post a Comment