گلیڈی ایٹرز
اے خدا
یہ ہے مِرے دیس کی بستی
کہ کوئی روم کے اس عہد کا منظر
کہ اکھاڑے میں جہاں چار طرف
خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے
کچھ وحشی درندوں کا ہجوم
جن کے نرغے میں گِھرے
درد کی شدت سے بلکتے یہ نہتے انساں
اور اطراف میں ہنستی ہوئی
احساس سے عاری مخلوق
جس کو تہذیب کوئی نام نہیں دے پائی
آج بھی محض تماشائی کہا جاتا ہے
اے خدا
یہ تو مرے دیس کا دستور نہ تھا
مری تعلیم کا، تہذیب کا منشور نہ تھا
اور گر خون میں بہتی ہوئی دیرینہ جبلت کی بدولت پھر سے
جاگ اٹھی ہے کوئی لذتِ وحشت
تو ہوئے کیا
مری تاریخ پہ پھیلے
وہ محبت کے الوہی قصے
دردِ انساں کے زمینی دعوے
وہ ترے عشق میں ڈوبے نعرے
وہ طریقت کی کتابیں، وہ صحیفوں کے ورق
وہ محبت کی رسومات، وہ صوفی کے سبق
اے خدا
کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں کہنے کو
جھوٹ کی نذر کیے، سب ترے فرماں بر حق
تجھ سے کیا عشق کریں گے کہ نہیں ہے باقی
ہم میں انساں سے محبت کی ذرا سی بھی رمق
شرمساری ترے دربار میں لائی ہے ہمیں
جرم ثابت ہے
کہ ہم تیری خلافت کے تقاضوں سے وفادار نہیں
تری امید کو جو زخم دیا ہے ہم نے
وہ ہماری ہے، تری ہار نہیں
چھین لے ہم سے مقدس عہدہ
کہ زمیں پر ترے نائب ٹھہریں
ہم کسی طور سے حقدار نہیں
ناصرہ زبیری
No comments:
Post a Comment