ہم وقت کے مچان پر بیٹھے ہیں
شاید بس ڈرتے ہیں
کہیں وہ ہمیں دھکا نہ دے دے
ہم نے مچان کے کونے کو اپنے ہاتھوں سے
تھاما ہوا ہے
وقت ہنستا ہے اپنا منہ چھپا کر
ہماری بزدلی پر
اور موت جس سے ڈر کر ہم مچان پر چڑھ گئے تھے
جو سرخ ڈوپٹہ اوڑھے پیٹھ پیچھے کھڑی ہے
وہ وقت کی دوستی پر نازاں ہے
وہ جانتی ہے
وقت اس کے اشارے پر
ہمیں دھکا دے دے گا
اور ہم جو وقت کے مچان پر بیٹھے
سوچ رہے ہیں
ہم تو بچے ہوئے ہیں
عذرا عباس
No comments:
Post a Comment