Tuesday, 24 November 2020

جو حشر زمیں پر ہے بپا دیکھ رہا ہے

 جو حشر زمیں پر ہے بپا، دیکھ رہا ہے

اس صبر کے ماتم کو خدا دیکھ رہا ہے

منصف کو اگر ظلم دکھائی نہیں دیتا

قہار تو مفلس کی رِدا دیکھ رہا ہے

ہاتھوں میں وہ تھامے ہوئے فرمانِ عدالت

ناکردہ گناہوں کی سزا دیکھ رہا ہے

مسلم ہو تو یکجا رہو اس کفر کے آگے

جو تجھ کو جدا، مجھ کو جدا دیکھ رہا ہے

انسان کو قرآن عطا جس نے کیا تھا

وہ اس کو غلافوں میں پڑا دیکھ رہا ہے

گھوڑے بھی جفاکار سواروں پہ ہیں نادم

سالار بھی لشکر کی وفا دیکھ رہا ہے

پھر کیسے نہ مایوس ہو بیمار شفا سے

وہ اپنے طبیبوں کی دعا دیکھ رہا ہے

دامن پہ لگے داغ میں دھوتا رہا جس کے

کم ظرف وہی میری قبا دیکھ رہا ہے

اے شاعرِ دلگیر! ہمیں کچھ تو بتا دے

اس شہرِ تماشا میں تُو کیا دیکھ رہا ہے

کھٹکے گی تری آنکھ ہر اک آنکھ میں واصف

تُو قطرے میں طوفانِ بلا دیکھ رہا ہے


جبار واصف

No comments:

Post a Comment