Tuesday 24 November 2020

میں جو کچھ کہ رہی ہوں وہ صرف احساس نہیں

زرد پتے 


میں جو کچھ کہ رہی ہوں 

وہ صرف احساس نہیں 

کچھ اور ہے 

یہ زرد سا پتہ 

جو پتھریلی زمین پر پڑا ہے 

کس کا ہاتھ تھام کر 

درخت سے نیچے آیا ہے 

اس کی سانس گھٹی گھٹی سی 

پتھریلی زمین میں ایک دروازہ ہے شاید 

اسی میں سے وہ آیا ہو گا

سفید کوٹ پہنے 

کلائیاں انسانی ہڈیوں کے زیور سے آراستہ 

دھیرے دھیرے وہ زرد پتے کی طرف بڑھتا ہے 

کہتا ہے؛

جانتے ہو کون ہوں میں؟ 

خوف ہوں

نام سنتے ہی زرد پتہ تیز تیز سانس لیتا ہے 

اچانک پیڑ کے تمام پتے 

اس کے آس پاس آ گِرتے ہیں 

بغیر کسی سہارے کے 

پتھریلی زمین زرد لاشوں سے پٹ گئی ہے


صادقہ نواب سحر

صادقہ آراء

No comments:

Post a Comment