زرد پتے
میں جو کچھ کہ رہی ہوں
وہ صرف احساس نہیں
کچھ اور ہے
یہ زرد سا پتہ
جو پتھریلی زمین پر پڑا ہے
کس کا ہاتھ تھام کر
درخت سے نیچے آیا ہے
اس کی سانس گھٹی گھٹی سی
پتھریلی زمین میں ایک دروازہ ہے شاید
اسی میں سے وہ آیا ہو گا
سفید کوٹ پہنے
کلائیاں انسانی ہڈیوں کے زیور سے آراستہ
دھیرے دھیرے وہ زرد پتے کی طرف بڑھتا ہے
کہتا ہے؛
جانتے ہو کون ہوں میں؟
خوف ہوں
نام سنتے ہی زرد پتہ تیز تیز سانس لیتا ہے
اچانک پیڑ کے تمام پتے
اس کے آس پاس آ گِرتے ہیں
بغیر کسی سہارے کے
پتھریلی زمین زرد لاشوں سے پٹ گئی ہے
صادقہ نواب سحر
صادقہ آراء
No comments:
Post a Comment