Monday, 2 November 2020

اک حد اختیار سے انکار بھی نہیں

 اک حدِ اختیار سے انکار بھی نہیں

مختار بھی ہے آدمی مختار بھی نہیں

غم کی طویل شب میں ہجوم امید و یاس

آثار بھی ہیں صبح کے آثار بھی نہیں

کیسی ہے گار گروہ نظر کچھ نہ پوچھئے

ایسی تو کارگر کوئی تلوار بھی نہیں

میخانے میں خوشی سے پئے جو شراب

ایسا مِرے سوا کوئی میخوار بھی نہیں

حیرت ہے جس نے باغ کو سینچا ہے خوں سے

وہ شخص ایک پھول کا حقدار بھی نہیں

دشمن ہے جب سے باغ کا خوش باغبان سے

گلشن میں گل تو گل ہیں کوئی خار نہیں

ممکن ہے مرتے دم بھی نہ آہیں وہ دیکھنے

قسمت میں شاید آخری دیدار بھی نہیں

ہے منہ کفن میں اب تو حضور آ کہ دیکھ جاہیں

اب تو کوئی شکایتِ بیمار بھی نہیں

پرنم یہ تیرے اشکِ ندامت کا ہے کمال

ہو کر گناہ گار گنہ گار نہیں


پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment