Thursday, 26 November 2020

دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا

 دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا

ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا

آستینوں میں سانپ پالے تھے

دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا

زخم کاری بہت لگا دل پر

تیر اپنوں نے اک چلایا تھا

برق مانگی نہیں فلک تجھ سے

ہم نے خرمن کو خود جلایا تھا

دل کو زخموں سے چور ہونا تھا

عشق کی راہ پر چلایا تھا

پوچھتے ہو دھواں ہیں کیوں آنکھیں

جاں کی بستی میں دل جلایا تھا

میں تو بھولا نہیں سحاب اس کو

اس نے کیسے مجھے بھلایا تھا


لئیق اکبر سحاب

No comments:

Post a Comment