دوستوں نے یہ گل کھلایا تھا
ہاتھ دشمن سے جا ملایا تھا
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انہیں پلایا تھا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا
برق مانگی نہیں فلک تجھ سے
ہم نے خرمن کو خود جلایا تھا
دل کو زخموں سے چور ہونا تھا
عشق کی راہ پر چلایا تھا
پوچھتے ہو دھواں ہیں کیوں آنکھیں
جاں کی بستی میں دل جلایا تھا
میں تو بھولا نہیں سحاب اس کو
اس نے کیسے مجھے بھلایا تھا
لئیق اکبر سحاب
No comments:
Post a Comment